राजेश गुलाटी ने अनुपमा गुलाटी के 72 #टुकड़े किए और D फ्रीजर में रक्खा आफताब ने श्रद्धा के 35 टुकड़े
غیرموقللد مرزائی ولیوں کا مذاک اڑاتے ہیں لیکن یہ سچ نہیں ہے اصل میں وہ نبی صلّ کا مذاک اڑاتے ہیں لیکن وہ نام کی جگہ بابے کہتے ہیں وہ ایسا اس لئے کہتے ہیں کیونکی اگر وہ نبی صلم کا نام لینگے تو مسلمان انکی بات سنیگا ہی نہیں
- Get link
- X
- Other Apps
آپ نے ایک واقعے کا حوالہ دیا ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے پانی بہنے کا ذکر ہے۔
یہ واقعہ معجزات نبوی میں سے ایک ہے جس کی تفصیل احادیث کی کتب میں موجود ہے۔
میں نے اس واقعے کی مکمل تفصیل اور حوالہ جات کو یقینی بنانا ہے تاکہ معلومات درست اور مستند ہوں۔
اس واقعے کی اہمیت اور اس سے متعلقہ تفصیلات بھی بیان کرنی ہوں گی تاکہ سوال کا جامع جواب مل سکے۔
میں نے یہ بھی واضح کرنا ہے کہ یہ واقعہ کس موقع پر پیش آیا اور اس کا تاریخی حوالہ کیا ہے۔
صحیح بخاری: کتاب المغازی، باب غزوۃ تبوک
بین الاقوامی حوالہ (International Reference):
بین الاقوامی سطح پر حدیث کے معروف ڈیٹا بیسز میں اسے درج ذیل نمبر سے جانا جاتا ہے:
صحیح بخاری: 4416
صحیح مسلم: 6812
مختصراً:
حادث/واقعہ: معجزۂ انفجار الماء (پانی کا انگلیوں سے پھوٹنا)
واقعہ نمبر (حدیث نمبر): 4416 (صحیح بخاری)
بین الاقوامی نمبر: یہی 4416 بین الاقوامی سطح پر مستعمل ہے۔
واقعہ معراج: مکمل تفصیل
یہ حدیث صحیح بخاری کی سب سے طویل احادیث میں سے ایک ہے۔ اس کا خلاصہ اور اہم مراحل درج ذیل ہیں:
حدیث: (صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب: کیف فرضت الصلوٰۃ فی الاسراء، حدیث نمبر 349)
راوی: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ
سند: حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن صالح بن كيسان، عن عروة بن الزبير، عن عائشة أم المؤمنين...واقعے کے اہم مراحل:
آغاز: ایک رات رسول اللہ ﷺ بیت اللہ (کعبہ) کے پاس حطیم (یا بعض روایات کے مطابق ابوطالب کی بیٹی ام ہانی کے گھر) میں سو رہے تھے۔
سفر کی تیاری:
فرشتوں کی ایک جماعت آئی اور آپ ﷺ کا سینہ مبارک چاک کیا۔
انہوں نے زمزم کے پانی سے آپ کے سینے کو دھو کر حکمت اور ایمان سے بھر دیا۔
براق کی آمد:
آپ ﷺ کے لیے ایک سفید رنگ کا جانور "براق" لایا گیا۔ یہ گھوڑے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا، جس کے قدم نظر کی حد سے آگے رکھتے تھے۔
آپ ﷺ براق پر سوار ہوئے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے ساتھ تھے۔
بیت المقدس (مسجد اقصیٰ) پہنچنا:
براق آپ ﷺ کو لے کر بیت المقدس پہنچا۔
آپ ﷺ نے براق کو مسجد کے باہر وہیں باندھا جہاں پہلے انبیاء اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے۔
مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کی امامت:
آپ ﷺ مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے تو وہاں پہلے تمام انبیاء علیہم السلام جمع تھے۔
آپ ﷺ نے ان سب کی امامت کر کے نماز پڑھائی۔ یہ آپ ﷺ کے لیے بہت بڑی عزت اور فضیلت تھی۔
معراج: آسمان کی طرف سفر:
بیت المقدس سے آپ ﷺ کا آسمان کی طرف سفر (معراج) شروع ہوا۔
آپ ﷺ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ پہلے آسمان پر پہنچے۔ دروازہ کھلوا کر اندر گئے۔
ساتوں آسمانوں کا سفر اور انبیاء سے ملاقاتیں:
پہلا آسمان: آپ ﷺ کی ملاقات حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی۔
دوسرا آسمان: آپ ﷺ کی ملاقات حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام سے ہوئی۔
تیسرا آسمان: آپ ﷺ کی ملاقات حضرت یوسف علیہ السلام سے ہوئی۔
چوتھا آسمان: آپ ﷺ کی ملاقات حضرت ادریس علیہ السلام سے ہوئی۔
پانچواں آسمان: آپ ﷺ کی ملاقات حضرت ہارون علیہ السلام سے ہوئی۔
چھٹا آسمان: آپ ﷺ کی ملاقات حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہوئی۔
ساتواں آسمان: آپ ﷺ کی ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی، جو بیت المعمور کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔
سدرۃ المنتہیٰ کا دیدار:
آپ ﷺ ساتویں آسمان سے آگے سدرۃ المنتہیٰ (ایک عظیم بیر کی جھاڑی) پر پہنچے۔ اس کے پتوں کو ہاتھی کے کان اور پھلوں کو بڑے مرتبان سے تشبیہ دی گئی۔
اللہ تعالیٰ کے قریب حاضری:
آپ ﷺ نے سدرۃ المنتہیٰ پر بہت سی عجیب و غریب چیزیں دیکھیں۔
آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے بہت قریب لے جایا گیا، یہاں تک کہ آپ ﷺ اور اللہ کے درمیان صرف دو کمانوں کا فاصلہ یا اس سے بھی کم رہ گیا۔ (یہاں پر آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا، بلکہ اس مقام پر اللہ نے آپ سے براہ راست کلام فرمایا)۔
پانچ نمازوں کی فرضیت:
اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پر پچاس نمازیں فرض کیں۔
واپسی پر آپ ﷺ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی امت پچاس نمازیں ادا نہیں کر سکے گی۔ آپ ﷺ واپس اللہ کے پاس گئے اور تخفیف کی درخواست کی۔
یہ سلسلہ کئی بار چلا، یہاں تک کہ پچاس نمازیں گھٹا کر پانچ کر دی گئیں، لیکن ثواب پچاس نمازوں جتنا ہی رہا۔
جنت اور دوزخ کا دیدار:
آپ ﷺ کو جنت میں نیک بندوں کے انعامات اور دوزخ میں گنہگاروں کے عذاب دکھائے گئے۔
واپسی اور صبح کو واقعہ بیان کرنا:
آپ ﷺ اسی رات مکہ مکرمہ واپس آ گئے۔
صبح کو آپ ﷺ نے یہ واقعہ لوگوں کو سنایا تو کفار مکہ نے اس کا خوب مذاق اڑایا اور اسے جھوٹ سمجھا۔
دیگر اہم حوالہ جات:
صحیح مسلم: کتاب الایمان، باب: الاسراء برسول ﷺ الی السموات وفرض الصلوات، حدیث نمبر 162۔
صحیح بخاری: کتاب بدء الخلق، باب: ذکر الملائکہ، حدیث نمبر 3207۔
سورۃ الاسراء: آیت نمبر 1: "پاک ہے وہ (اللہ) جو اپنے بندے (محمد ﷺ) کو رات ہی رات میں مسجد حرام (مکہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک لے گیا، جس کے گرد ہم نے برکت دے رکھی ہے، تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ یقیناً وہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔"
سورۃ النجم: آیات 13-18: ان آیات میں سدرۃ المنتہیٰ اور معراج کے کچھ مناظر کا ذکر ہے۔
خلاصہ: یہ وہ عظیم واقعہ ہے جس میں آپ ﷺ نے ایک ہی رات میں مکہ سے بیت المقدس کا سفر (اسراء) اور پھر وہاں سے آسمانوں کی طرف سفر (معراج) کیا۔ اس سفر میں آپ ﷺ نے تمام انبیاء سے ملاقاتیں کیں، جنت و دوزخ کا مشاہدہ کیا اور براہ راست اللہ تعالیٰ کے حکم سے پانچ نمازیں فرض کی گئیں
پوری حدیث اور حوالہ:
یہ واقعہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں موجود ہے۔
حدیث نمبر (صحیح بخاری): 3582
کتاب: کتاب المناقب (رسول اللہ ﷺ کے فضائل و معجزات)
باب: علامات النبوۃ فی الاسلام (اسلام میں نبوت کی علامات)متن حدیث (خلاصہ):
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک برتن میں دودھ لایا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "ابو ہریرہ کو بلاؤ۔" جب میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: "اہل صفہ کو بلاؤ۔" (اہل صفہ وہ غریب صحابہ تھے جو مسجد نبوی میں قیام پذیر تھے)۔جب وہ آ گئے تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا: "ابو ہریرہ! تم انہیں دودھ پلاؤ۔"
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
میں نے برتن لیا اور ایک ایک کر کے ہر شخص کو دودھ پلانا شروع کیا۔
ہر شخص سیراب ہو کر بیٹھ جاتا، پھر میں اگلے شخص کو دیتا۔
یہاں تک کہ سارے اہل صفہ سیراب ہو گئے۔
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے برتن لیا اور مسکرا کر فرمایا: "اب صرف تم اور میں ہی رہ گئے ہیں۔"
پھر آپ ﷺ نے خود بھی دودھ پیا اور میں نے بھی پیا۔
نوٹ: اس حدیث میں واضح طور پر بکری کا ذکر نہیں، بلکہ دودھ کا ایک برتن (ظرف) لایا گیا تھا۔ تاہم، بہت سی روایات اور تفاسیر میں یہ بات ملتی ہے کہ یہ دودھ ایک بکری کا تھا جو کسی نے تحفے میں پیش کیا تھا۔
اس واقعے کی اہمیت:
یہ رسول اللہ ﷺ کا ایک ظاہر معجزہ تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ہاتھ پر تھوڑے سے دودھ میں اتنی برکت ڈال دی کہ سینکڑوں صحابہ سیراب ہو گئے۔ یہ معجزہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں۔
دیگر حوالہ جات:
صحیح مسلم: کتاب الفضائل، باب: من فضائل النبی ﷺ
صحیح بخاری: کتاب الرقاق، باب: التواضع
اللہ تعالیٰ ہمیں اس طرح کے پاکیزہ واقعات سے اپنے محبوب نبی ﷺ کی سچائی پر ایمان مضبوط کرنے کی توفیق عطا فرمائے
صحیح بخاری:
حدیث نمبر: 6452
(یہ نمبر جدید اور بین الاقوامی طباعت میں سب سے زیادہ مستعمل ہے)کتاب: کتاب الرقاق (The Book of Softening of the Hearts)
باب: باب التواضع (Chapter on Humility)
صحیح مسلم:
حدیث نمبر: 6452
(بعض اشاعتوں میں 6451 بھی ہے)کتاب: کتاب الفضائل (The Book of Virtues)
باب: باب قُوَّتِهِ ﷺ وَتَعَافِي الْأَطْعِمَةِ (Chapter on His ﷺ Strength and the Multiplication of Food)
مختصر واقعہ (خلاصہ):
یہ واقعہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دودھ کا ایک برتن لایا گیا۔ آپ ﷺ نے حکم دیا کہ "اہل صفہ" (مسجد نبوی میں مقیم غریب صحابہ) کو بلایا جائے۔ پھر آپ ﷺ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو وہ برتن دے کر ہر ایک کو دودھ پلانے کو کہا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہر آنے والے کو دودھ پلاتے رہے اور وہ سیراب ہو کر بیٹھ جاتا، یہاں تک کہ سینکڑوں صحابہ سیراب ہو گئے، لیکن دودھ ختم نہ ہوا۔ آخر میں رسول اللہ ﷺ نے خود بھی نوش فرمایا۔
خلاصہ نمبرز:
بخاری: 6452
مسلم: 6452
"حدیث جذع النخْلہ" (کھجور کے تنے کی حدیث) کہا جاتا ہے۔
پوری حدیث اور حوالہ جات: یہ واقعہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں موجود ہے۔
📖 حدیث کا متن (خلاصہ):
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں ایک کھجور کے تنے (ستون) پر کھڑے ہو کر خطبہ دیا کرتے تھے۔ جب منبر بنایا گیا اور آپ ﷺ اس پر کھڑے ہوئے تو وہ کھجور کا تنا اس طرح روپڑا جیسے بچہ روتا ہے۔
نبی ﷺ منبر سے اتر کر اس تنے کے پاس گئے اور اسے اپنا دست مبارک پھیرا، تب جا کر وہ خاموش ہوا۔
(صحیح بخاری)
🎯 بین الاقوامی حوالہ جات (International References):
- صحیح بخاری: حدیث نمبر: 449
کتاب: کتاب الجمعة (جمعہ کے احکام کا کتاب)
باب: باب الْخُطْبَةِ عَلَى الْمِنْبَرِ (منبر پر خطبہ دینے کا باب)
-
صحیح بخاری ہی میں دوسری سند سے: حدیث نمبر: 3584
-
صحیح مسلم: حدیث نمبر: 828
کتاب: کتاب المساجد (مساجد کا کتاب)
📚 حدیث کا مکمل متن (عربی سے ترجمہ):
"كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقُومُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلَى شَجَرَةٍ أَوْ نَخْلَةٍ، فَقَالَتْ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ - أَوْ رَجُلٌ -: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نَجْعَلُ لَكَ مِنْبَرًا؟ قَالَ: إِنْ شِئْتُمْ. فَجَعَلُوا لَهُ مِنْبَرًا، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ دُفِعَ إِلَى الْمِنْبَرِ، فَصَاحَتْ النَّخْلَةُ صِيَاحَ الصَّبِيِّ، ثُمَّ نَزَلَ النَّبِيُّ ﷺ فَضَمَّهُ إِلَيْهِ تَئِنُّ أَنِينَ الصَّبِيِّ الَّذِي يُسَكَّتُ"
ترجمہ: "رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن ایک درخت یا کھجور کے تنے کے پاس کھڑے ہوتے تھے۔ ایک انصاری خاتون یا مرد نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم آپ کے لیے ایک منبر نہ بنا دیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو۔ چنانچہ انہوں نے آپ کے لیے منبر بنا دیا۔ پھر جب جمعہ کا دن آیا تو آپ ﷺ منبر کی طرف چلے گئے، تو وہ کھجور کا تنا ایسے رویا جیسے بچہ روتا ہے۔ پھر نبی ﷺ منبر سے اترے اور اسے اپنے سینہ مبارک سے لگا لیا، تو وہ اس طرح چپ ہوا جیسے بچہ چپ کروایا جاتا ہے۔"
✨ اس واقعے کی اہمیت اور سبق:
یہ رسول اللہ ﷺ کا ایک ظاہر معجزہ ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کی قدرت سے بے جان چیزیں بھی محبت اور جدائی میں درد محسوس کر سکتی ہیں۔
یہ واقعہ آپ ﷺ کی رحمت و شفقت کا بھی مظہر ہے کہ آپ نے ایک درخت کو بھی تسلی دی
واقعہ: بادل کا سایہ کرنا
یہ واقعہ متعدد صحیح احادیث میں موجود ہے:
📖 صحیح بخاری میں روایت:
حدیث نمبر: 3493 (بین الاقوامی نمبر)
کتاب: کتاب المناقب (رسول اللہ ﷺ کے فضائل و معجزات)
راوی: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
متن حدیث (خلاصہ):
"ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ اس سفر میں ایک بادل آپ ﷺ پر سایہ کئے ہوئے تھا۔ ہم نے اس بادل کو دیکھا کہ وہ آپ ﷺ کے اوپر سایہ کئے ہوئے ہے اور آپ ﷺ کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔"📚 صحیح مسلم میں روایت:
حدیث نمبر: 2322 (بین الاقوامی نمبر)
راوی: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ
متن حدیث:
"ایک شخص (یہودی) آیا اور کہا: اے ابوالقاسم! اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو انوکھے معجزے عطا فرمائے تھے (کنویں کے پانی کا ہاتھ پر مارنے سے بہہ نکلنا، اور ٹڈی دل، جلقوں، مینڈکوں اور خون کے معجزے)۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"کیا یہ نہیں ہوا کہ ایک بادل ان پر سایہ کئے ہوئے تھا جس میں ان کے لئے من و سلویٰ اتارا جاتا تھا؟"اس یہودی نے کہا: کیوں نہیں، ضرور ہوا۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
"پھر (سنو!) میں بھی اسی طرح ایک سفید بادل کے ساتھ بھیجا گیا ہوں جو میرے اوپر سایہ کرتا ہے، اور وہ میرے لئے کھانا اتارتا ہے۔"✨ اس واقعے کی اہمیت:
معجزہ: یہ آپ ﷺ کی نبوت کا ایک ظاہر معجزہ تھا جو صحابہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
اللہ کی خاص نگرانی: اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی ﷺ کی ہر حال میں حفاظت اور نگرانی فرمائی۔
دعوت کا طریقہ: آپ ﷺ نے یہودی کے سامنے اس کے اپنے نبی کے معجزے کا حوالہ دے کر اپنی نبوت ثابت کی۔
فضیلت: یہ آپ ﷺ کے مختص فضائل و معجزات میں سے ایک ہے۔
خلاصہ حوالہ جات:
صحیح بخاری: 3493
صحیح مسلم: 2322
واقعہ: حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمرود کی آگ میں پھینکا جانا 📖 قرآن مجید میں حوالہ: سورۃ الانبیاء، آیات 68-69:
قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ ﴿68﴾ قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ ﴿69﴾
ترجمہ: "کافروں نے کہا: اسے جلادو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو اگر تم کو کچھ کرنا ہی ہے۔ (68) ہم نے حکم دیا: اے آگ! تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا۔ (69)"
📚 حدیث میں حوالہ: صحیح بخاری، کتاب الاحکام، حدیث نمبر 6938:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَمْ يَكْذِبْ قَطُّ إِلَّا ثَلَاثَ كَذَبَاتٍ..." (اس حدیث میں ان تین مواقع کا ذکر ہے جن میں حضرت ابراہیم نے مصلحت کے تحت بات کی)
تفسیر میں اس واقعے کی تفصیل:
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نمرود اور اس کی قوم کے بتوں کو توڑا
انہوں نے ان سے بحث کی اور توحید کی دعوت دی
پھر نمرود نے انہیں آگ میں پھینکنے کا حکم دیا
🕌 واقعے کی مکمنیکل تفصیل: سبب: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کے بتوں کو توڑا اور توحید کی دعوت دی۔
عظیم آگ: نمرود نے عظیم الشان آگ تیار کرائی جسے دیکھ کر پوری قوم حیران رہ گئی۔
منجنیق میں ڈالا: حضرت ابراہیم کو منجنیق (catapult) میں ڈال کر آگ کے وسط میں پھینکا گیا۔
اللہ کا حکم: اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا: "یا نار کونی برداً وسلاماً علی ابراہیم"
معجزہ: آگ حضرت ابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو گئی۔ وہ بالکل محفوظ رہے۔
نمرود کی حیرت: نمرود اور اس کی قوم یہ معجزہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔
✨ تفسیری نکات (تفسیر ابن کثیر): آگ نے حضرت ابراہیم کے بدن کو نہیں جلاتا بلکہ ان کے کپڑے بھی محفوظ رہے
آگ نے پھولوں کے باغ کی شکل اختیار کر لی
یہ اللہ کی قدرت کا کامل مظہر تھا
🎯 خلاصہ حوالہ جات: قرآن مجید: سورۃ الانبیاء (21) آیات 68-69
قرآن مجید: سورۃ الصافات (37) آیات 97-98
صحیح بخاری: حدیث نمبر 6938
تفسیر ابن کثیر: جلد 5، صفحہ 421-423
آپ کے ذکر کردہ واقعہ کا تعلق غزوہ تبوک کے موقع سے ہے۔ یہ واقعہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم سمیت کئی معتبر حدیث کی کتابوں میں درج ہے۔
واقعہ کی تفصیل:
غزوہ تبوک کے سفر میں جب مسلمان پانی کی شدید قلت کا شکار ہوئے، تو رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا گیا۔ آپ ﷺ نے اپنا دستِ مبارک ایک برتن کے نیچے رکھا اور دعا فرمائی۔ اس وقت آپ ﷺ کی انگلیوں سے پانی کے چشمے پھوٹ نکلے، جس سے تمام صحابہ نے سیراب ہو کر اپنے مشکیزے بھر لیے۔ یہ معجزہ آپ ﷺ کی نبوت کی ایک واضح نشانی تھی۔
حادث/واقعہ نمبر:
یہ واقعہ عام طور پر "حادثہ تبوک" یا "معجزۂ انفجار الماء من بین اصابعہ ﷺ" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ صحیح بخاری میں اس کی تفصیل کتاب المغازی کے باب "غزوۃ تبوک" میں موجود ہے۔
احادیث کے حوالہ جات:
- Get link
- X
- Other Apps

Comments
Post a Comment